Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 مسز عابدی دانشمند اور جہاندیدہ خاتون تھیں۔ فیاض صاحب کی فیملی سے پرانے مراسم کے باعث وہ گھر کے ماحول اور خصوصاً اماں جان کے رکھ رکھاؤ، بارعب اور پرجلال شخصیت سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ شیری اگر ان سے پرمیشن لیتا تو وہ کبھی بھی اسے پارس کی تصویریں بنانے کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ واقف تھیں شیری کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کو فیاض کی فیملی میں پسند نہیں کیا جائے گا اور ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا جب امان جان نے فون کرکے بغیر لحاظ کئے کھری کھری سنائیں اور حکم بھی صادر کیا کہ وہ پری کی تمام تصویریں لے کر گھر آئیں اور آج تصویریں ملتے ہی وہ فوراً ان کے گھر جانے کیلئے روانہ ہو گئی تھیں۔
شیری کے شدید اصرار کے باوجود اس کو ساتھ اس لئے نہیں لیا کہ کہیں اماں جان مزید طیش کا شکار نہ ہو جائیں مگر وہ جتنی خوفزدہ ہو کر گئی تھی اماں جان نے بہت نرم و محبت بھرے انداز میں اس کا استقبال کیا، بڑے روایتی انداز میں ان کی آؤ بھگت کی تھی۔




”رئیلی آنٹی! میں بڑی خوفزدہ تھی۔“ وہ کافی کا سپ لیتی ہوئیں اماں جان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئیں۔
”ارے کس سے خوفزدہ ہو کر آئی تھیں بیٹا؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا تھا۔
”آپ سے آنٹی! یقین جانئے۔“ شیری نے میری بنا اجازت ہی پری کی فوٹو کھینچ لی تھیں اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ ہونے دیتی، میں جانتی ہوں آپ کو یہ سب ناپسند ہے۔“
”تمہارے بیٹے نے کی تو بہت ہی نامعقول حرکت لیکن تم نے اور عابدی نے جس انداز میں معذرت کی اور اب تمہارا اس طرح یہاں ان تصویروں کا لاکر دینا مجھے مطمئن کر گیا ہے۔
”بہت شکریہ آنٹی! مجھے اور عابدی کو آپ نے اپنا سمجھا۔ شیری کی اس حرکت کو درگزر کرکے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ دراصل شیری پڑھائی کے سلسلے میں ہم سے دو رہا ہے غیر ملک، غیر لوگوں میں رہ کر وہ اپنی اقدار و روایات کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ اب یہاں آ گیا ہے میں اس کی تربیت کرنے کی کوشش کروں گا۔“ وہ کافی پیتے ہوئے آہستگی سے کہہ رہی تھیں۔
”نیک ماں باپ کی اولاد ہے وہ اس بچے کو سمجھاؤں گی اپنے ماحول سے روشناس کراؤں گی تو سب سمجھ جائے گا۔“ اماں جان کو ان کی عاجزی و تابعداری نے خاصا متاثر کیا تھا۔ مستزاد ان کا وعدے کے مطابق تصویریں لانا ان کا غصہ زائل کر چکا تھا۔
”آنٹی! آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہوں گی تو میں ہر مشکل مرحلے سے با آسانی گزر جاؤں گی پری کہاں ہیں؟ وہ سلام کرکے گئی ہیں تو پھر نہیں آئی ہیں۔
“ وہ وہاں خاموش بیٹھی صباحت سے گویا ہوئیں۔
”وہ کہاں جائے گی ہو گی اپنے روم میں۔“ اماں کی موجودگی نے ان کو کوئی سخت جملہ کہنے سے باز رکھا۔
”کچن میں ہے پری میرے لئے پرہیزی کھانا بنا رہی ہے۔“
”امیزنگ، پری کوکنگ کر لیتی ہیں۔ وگرنہ آج کل تو لڑکیاں کچن کے نام سے ہی گھبراتی ہیں۔“ ان کے لہجے میں ستائش تھی۔
”میری پری ہر وہ کام کرتی ہے جس کام سے آج کل ہڈ حرام لڑکیاں جان چھڑاتی ہیں بے حد سگھڑ اور سلیقہ مند ہے میری پری۔
“ ان کے تعریفی انداز پر صباحت کے چہرے کے نقوش میں بے اری و غصہ جھلکنے لگا تھا مسز عابدی کی آمد غیر متوقع ہوئی تھی۔
عادلہ اور عائزہ اپنی خالہ کے ہاں گئی تھیں ان کو پہلے ہی ان کی آمد اور عادلہ کی غیر موجودگی سے دھچکا لگا تھا دوئم ان کو پری کی طرف ملتفف دیکھ کر ان کے اندر غم و غصے کا ہیجان سا برپا ہو رہا تھا۔
”ماشاء اللہ اس میں کوئی شک نہیں صورت و سیرت میں یکتا ہے پارس، آپ انہیں یہاں بلوائیں تو میں ان سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔
###
رات ابھی زیادہ گہری نہیں ہوئی تھی مگر اس گھر کے درو دیواروں پر کچھ زیادہ ہی اندھیرا چھا گیا تھا صحن تلے کھڑا نیم کا درخت ساکت کھڑا تھا اس کی لاتعداد ٹہنیوں میں سجے بے شمار پتوں کو بھی گویا سکتہ سا ہو گیا تھا جو ذرا بھی جنبش نہیں کر رہے تھے ہر سو عجیب اداسی و خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
ماہ رخ چند لمحے صحن میں کھڑی رہی بے حس و حرکت، اس کی دھڑکنوں کی سدا کانوں میں گونج رہی تھی۔
اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں فتح مندی کی چمک وہ کھڑی اپنے دل کی دھڑکنوں کی خوشگواریت کو محسوس کرتی رہی اس کا رواں رواں مسرت کی لے پر جھوم رہا تھا۔
کچھ دیر تک کھڑی وہ اپنے گھر کی ہر شے کو حقارت سے دیکھتی رہی پھر ان چھوٹی دیواروں اور کچے پکے صحن والے گھر میں اسے بچپن سے کوئی انسیت نہ تھی وہ حسین تھی اور بچپن سے اس حسن کا احساس دلایا گیا تھا اور یہ بھی احساس پختہ کیا گیا تھا کہ وہ اس گھر کے قابل نہیں ہے اس جیسی حسین لڑکی کو کسی بادشاہ کے ہاں پیدا ہونا چاہئے تھا وہ جھونپڑی میں نہیں محل میں رہنے کے قابل ہے۔
حسن وہ پردہ ہے جو اگر عورت کی عقل پر پڑے جائے تو اس سے پھر اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی تمیز چھین لیتا ہے اور یہ پردہ ماہ رخ کی عقل پر بچپن سے پڑا ہوا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور طویل ہوتا چلا گیا تھا وہ خود غرض و خود پرستی کی انتہاؤں کو پہنچ گئی تھی۔ اپنے سوائے اس کو کسی کی کوئی پروا تھی نہ محبت کسی کی بھی زندگی سے بڑھ کر محبت کرنے والے والدین، خود سے بڑھ کر چاہنے والے چچا، چچی، چاہتوں کی حدوں سے بڑھ کر پیار کرنے والا گلفام کسی کی بھی چاہت اس کا راستہ نہ روک سکی تھی۔
اس نے ہمیشہ سے صرف ”وصول“ کیا تھا۔ کچھ دینے کی عادت نہیں تھی اس کی اور پھر بھی وہ زندگی سے خفا رہتی تھی اپنوں سے نالاں رہتی تھی، سب کچھ پا کر بھی تہی داماں کی شکایت تھی۔ خواہشوں کے گھوڑے اس کے بے لگام ہو چکے تھے اور وہ آرزوؤں کی کھائی میں گرتی چلی گئی تھی۔
”اوہ! یہ کیا کر رہی ہوں میں؟ اتنی مشکل سے یہ گولڈن چانس آیا ہے اور میں یہاں فضول میں بیٹھ گئی ہوں، مجھے اس گھر میں پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے تھا میں اس گھر کیلئے نہیں بنی ہوں میں تو محلوں میں رہنے والی شہزادیوں سے زیادہ خوبصورت ہوں۔
ساحر ایک شہزادہ ہی تو ہے۔ جو مجھے پہچان گیا ہے اور لے جا رہا ہے مجھے اپنے دل کی شہزادی بنا کر اپنے محل کی ملکہ بنانے جہاں ہر جگہ میری ہی حکمرانی ہو گی۔“ اس کو ایک دم ہی خیال آیا تھا اور وہ مسرور انداز میں سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی۔ گھر والوں کی نظروں سے چھپ کر وہ پہلے ہی تمام زیورات اور عروسی ملبوسات (جو اس کی شادی کیلئے تیار کئے گئے تھے) تمام سامان رکھ کر وہ سوٹ کیس چھپا چکی تھی اس نے بیڈ کے نیچے سے سوٹ کیس نکال کر احتیاطاً سامان چیک کیا جو اسی طرح رکھا ہوا تھا۔
پھر اس نے ساحر کو فون کیا اور بتایا کہ وہ تمام سامان لے کر تیار ہے۔
”یہ کیا حماقت ہے تم نے گھر سے کچھ لے کر نہیں آنا ہے سمجھیں۔“
دوسری طرف سے وہ اس کی بات سن کر حیران رہ گئی تھی۔
###
مثنیٰ نے صفدر جمال کی طرف دیکھا ڈیڑھ ماہ کا عرصہ وہ لندن میں گزار کر آئے تھے اور پہلی بار وہ بے حد اپ سیٹ اور رنجیدہ تھے۔ سعود نے آنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ ان کے اصرا رسے تنگ آکر بغیر بتائے کہیں چلا گیا تھا اور کال کرکے کہہ دیا تھا کہ وہ اس کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔
ان کی واپسی کے بعد وہ خود واپس اپنے اپارٹمنٹ آ جائے گا۔
ان کو لندن سے واپس آئے کئی دن ہو گئے تھے مگر ان گزرے دنوں میں بھی ان کی سنجیدگی و رنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
”آپ کب تک سوگ منائیں گے صفدر! سعود کے آپ کے ساتھ پاکستان نہ آنے کا؟ ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔“ وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”مثنیٰ مجھے سعود کے یہاں نہ آنے کا افسوس نہیں ہے۔“
”پھر کیا سوچ رہے ہیں آپ؟“ انہوں نے ان کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے محبت سے پوچھا تھا۔
”یہی اس دور کی اولاد کتنی ہٹ دھرم و خود غرض ہے۔ والدین بچوں کی طرف کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ ان کی خوشیوں کی خاطر، ان کی آرزوؤں کی خاطر خود کو قربان کر دیتے ہیں۔ ہم نے بھی سعود کی خاطر اس کی ہر خواہش سے سمجھوتا کیا اپنی مسرتوں پر اس کی خواہشوں کو ترجیح ی۔
“ وہ بکھرے بکھرے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
”اس نے جواباً کیا دیا؟ ایک ہرجائی لڑکی کی بے وفائی نے اس کی نگاہوں میں سب کو بے وفا اور دھوکے باز بنا ڈالا ہے۔“
”بچہ ہے وہ ابھی، باشعور ہو گا تو سمجھ جائے گا۔“
”بچہ ہے، بے وقوف مت بنو یار! کیوں مذاق اڑاتی ہو؟“ وہ استہزائیہ انداز میں گویا ہوئے تھے۔
”آپ آرام کریں صفدر! پریشان مت ہوں پلیز، جب کہیں ہم ناکام ہو رہے ہوں تو وہ معاملہ اللہ پر چھوڑ کر صبر کر لینا چاہئے بے شک پروردگار ہی ہر معاملے کو سلجھانے والا ہے اور مجھے امید ہے یہ معاملہ بھی وہی حل کرے گا۔
###
طغرل اور مذنہ کی جانے تیاریاں ہو چکی تھیں انہوں نے فراز صاحب کی طبیعت کا مصلحتاً کسی کو نہیں بتایا تھا طغرل نے فیاض صاحب سے یہ شیئر کرنا بھی چاہا تو ان کو کسی وجہ سے بے حد خاموش اور پریشان دیکھ کر بتا نہ سکا تھا اور اپنے کمرے میں آ گیا تھا۔
اس نے کوٹ اتار کر وارڈ روب میں لٹکایا۔ اس کوٹ کی جیب میں وہی سفید لفافہ تھا جو اس کو بالکل بھی یاد نہ تھا۔
وہ باتھ روم سے نائٹ ڈریس میں باہر آیا تو مذنہ وہاں موجود تھیں۔
”بیٹا! میں سوچ رہی ہوں، اماں جان کو بتا دوں فراز کے بارے میں؟“ وہ آہستگی سے استفسار کرنے لگی تھیں۔
”نہیں مما! دادی جان برداشت نہیں کر پائیں گی، پریشان ہو جائیں گی معمولی سی بھی ٹینشن ان کیلئے صحیح نہیں ہے۔“
”ہوں، یہی فکر مجھے بھی لاحق ہے۔“
”کسی کو بھی مت بتائیں آپ، بلاوجہ سب یہاں پریشان ہوں گے۔
”لیکن کل کو شکوہ بھی ہوگا کہ ہمیں غیر سمجھا گیا یہاں لوگوں کی عادت بھی بے حد عجیب ہے۔“
مذنہ منہ بنا کر گویا ہوئی تھیں۔ ان کے لہجے میں بے زاری تھی۔
”مما! یہ عادت نہیں محبت ہوتی ہے جو رشتوں کو جوڑتی ہے۔“ وہ نوٹ کر رہا تھا دادی جان نے جب سے پری کے پرپوزل کی بات کی تھی تب سے وہ سب سے ہی بدظن و متنفر ہو گئی تھیں۔
”محبت سب جانتی ہوں میں، یہاں کی محبتوں اور رشتوں داریوں کو ہم جیسے لوگوں کو یہاں کے لوگ قربانی کا بکرا سمجھتے ہیں۔
”پلیز مما، آپ دکھی نہ ہوں۔“
”یہاں تو لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ میں واپس آ کر تو یہاں رہنے والی نہیں ہوں۔“
”اوکے مما ہمارا گھر تیار ہو جائے گا کنسٹرکشن بہت ہی تیز ہو رہی ہے آپ کی یہ خواہش ہے تو میں اور بھی جلدی کام کرنے کا آرڈر دے دوں گا۔“
”ہاں کہہ دو۔“ وہ اطمینان سے گویا ہوئیں۔
”جی او کے، دادی کا روم میں نے اپنے پورشن میں بنوا دیا ہے دادی جان کو میں اپنے ساتھ ہی رکھوں گا۔“
###
عادلہ اور عائزہ خالہ کے ہاں جانے کے بجائے راحیل کے گھر آ گئی تھی۔ عائزہ پہلے ہی اس کو بتا چکی تھی تو وہ آج بہت بہتر حلیے میں ان کو ملا تھا اور دل سے ویلکم کیا تھا وہ اس نیم تاریک ڈرائننگ روم میں موجود تھیں۔ جہاں دن کی روشنی میں بھی گھٹن و تاریکی تھی۔
عائزہ اس سے اپنے مخصوص بے تکلف انداز میں گفتگو کر رہی تھی۔ جس میں کال نہ کرنے، نہ ملنے کے گلے شکوے سرفہرست تھے۔
”تم خود ہی تو کہتی ہو یار! میں کال نہ کیا کروں۔ موقع دیکھ کر تم خود کال کرو گی۔“ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔
”یہی بات تو ملنے پر کہتی ہو، خود موقع دیکھ کر ملنے آؤ گی۔ اب بتاؤ تم اس میں میری غلطی کہاں ہے؟“
”تمہارے پاس تو بہانے ہوتے ہیں تم مجھ سے خود ملنا نہیں چاہتے ہو، اگر ٹرائی کرو تو کوئی سبیل نکل سکتی ہے، مگر…!“
”اب ناراض مت ہو کر بیٹھ جانا، پھر میں نے منایا تو مائنڈ کرو گی۔
“ وہ بات عائزہ سے کر رہا تھا اور اس کی نگاہیں گاہے بگاہے عادلہ کے چہرے پر ٹھہر ٹھہر جاتی تھیں۔ اب بھی وہ اسی انداز میں اس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا اس کی اس عامیانہ حرکت سے عادلہ کو کوفت ہو رہی تھی۔
”اچھا، کسی شرارت کی ضرورت نہیں ہے انڈر اسٹینڈ۔“ عائزہ جھینپ کر مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔
”چلو اب، ہمیں خالہ کے ہاں بھی جانا ہے اگر دیر ہوتی تو…!“
”کچھ نہیں ہوگا، ڈونٹ وری میں سنبھال لوں گی سب۔
“ وہ اس کی بات قطع کرکے بے فکری سے گویا ہوئی تھی۔
”تمہاری سسٹر کو اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟“ اس نے بے تکلفی سے کہا۔
”یہ بے چاری کبھی کسی کے ساتھ ڈیٹ پر نہیں گئی ہے نا اس لئے۔“ عائزہ نے عادلہ کی طرف دیکھ کر کہا پھر دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بے باکی سے ہنس پڑے تھے۔
”میں یہاں تم لوگوں کی بکواس سننے نہیں آئی ہوں۔
بہتر یہی ہے اب یہاں سے چلنے کی کرو۔“
عادلہ غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولی اور ساتھ ہی کھڑی ہوئی۔
”آپ مائنڈ کر گئیں سوری، غصہ مت ہوں میں کولڈرنک لاتا ہوں۔ ”راحیل کھڑا ہوا ہوا گویا ہوا اس کے انداز میں حد درجہ بے تکلفی تھی۔
”صرف کولڈرنک نہیں ساتھ کچھ اسنیکس بھی لے آنا ورنہ گھر جا کر عادلہ مجھے تمہاری کنجوسی کے طعنے دے گی۔“
”تم نے بتایا نہیں میں تو بڑا دل والا ہوں۔“ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
”صرف دل ہی نہیں ”جیب“ذ بھی بڑی ہونی چاہئے۔“
وہ طنزیہ انداز میں بولی تو عائزہ نے خفگی سے اسے دیکھا تھا اور راحیل کو کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکل گئی۔

   1
0 Comments